حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم/نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کی یاد میں ماہ محرّم کی پہلی تاریخ سے ہی مجالس کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ خاص طور پر امام بارگاہوں میں ایّام اعزاداری مجالس کا باضابطہ آغاز ہوچکا ہے۔ تاہم گزشتہ برس کی طرح رواں برس بھی کورونا گائیڈ لائن کی وجہ سے کچھ پابندیوں کے سائے میں عشرہ مجالس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
قم المقدسہ میں بھی مختلف مقامات پر کورونا پروٹوکول پر عمل کرتے ہوئے عزاداران حسین علیہ السلام کی مجلس کا سلسلہ جاری ہے۔سر زمین قم المقدسہ میں مجمع علماء و طلاب ہندوستان کی جانب سے حسینہ امام صادق علیہ السلام میں یکم محرم سے ۱۲ محرم الحرام ۱۴۴۳ تک عشرہ مجالس کا انعقاد کیا گیا، جس کو حجت الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا عقیل معروفی خطاب فرمارہے ہیں۔
تصویری جھلکیاں: سر زمین قم المقدسہ میں مجمع علماء و طلاب ہندوستان کی جانب سے عشرہ مجالس کا انعقاد
مولانا نے " کربلا گام بہ گام " کے عنوان سے بصیرت افروز مجالس کو خطاب کر رہے ہیں۔ مولانا نے حسینؑ جس پر اللہ کا نبی افتخار کرے اسے حسین ؑ کہتے ہیں، جس پر فاطمہؑ ناز کریں اسے حسین ؑ کہتے ہیں، جس پر علیؑ مرتضیٰ فخر کریں اسے حسین ؑ کہتے ہیں بلکہ یوں کہوں جس پر بشریت فخر کرے اسے حسینؑ کہتے ہیں جس پر مشیت الٰہی ناز کرے اسے حسین ؑ کہا جاتاہے، جس پر کعبہ سجدے کرے اسے حسین ؑ کہتے ہیں، جسے مشہد سجدہ کرے اسے حسین ؑ کہتے ہیں ۔
پھر مولانا موصوف نے جوش ؔ ملیح آبادی کے امام حسین ؑ سے متعلق اشعار پڑھے:
نازش نوعِ بشر فخراب وجد تھے حسینؑ
مفرد ومستندواشرف وامجدتھے حسینؑ
سجدہ کرتاتھا جدھر کعبہ وہ معبد تھے حسینؑ
نقطۂ پختگی ٔ فکر محمدؐ تھے حسینؑ
یہ نہ ہوتے تو یقیں صید گماں ہوجاتا
آخری شعلۂ پیغام دھواں ہوجاتا
مولانا عقیل معروفی نے عزاداری امام حسینؑ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آنسو کے سلسلے سے کہا کہ آنسو ایک قطرہ ہوگا مگر اس قطرے کی کیا قیمت کوئی لگا سکتاہے ، نہیں، خدا کی قسم! مؤرخین نے لکھا ہے کہ جو آنسو عظمت حسینؑ کے لئے نکلے،جو آنسو روحی ہماہنگی کے لئے نکل جائے،جو آنسو معرفتِ حسینی میں نکل جائے جو آنسو اس لئے نکلے تاکہ تھوڑا سا ایمان ہمارے اندر حسینؑ کا آجائےتھوڑی سی توحید ہمارے اندر آجائے تھوڑی سی استقامت ہمارے اندر آجائے تو لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ پوری دنیا ایک طرف ہوگی اور مومن کی آنکھوں سے نکلنے والا آنسو ایک طرف ہوگا۔ اور پھر جوش ملیح آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں:
تاج نے آل محمدؐ پر جو روکا پانی
پیاس کے ابر سے یوں ٹوٹ کر برسا پانی
بے دھڑک قصر حکومت میں در آیا پانی
ہوگیا سر سےشہنشاہ کے اونچاپانی
تاجداری مع اورنگ ونگیں ڈوب گئی
آسماں سے جو لڑی تھی وہ زمیں ڈوب گئی
مولانا موصوف نے عشرہ مجالس سے اہم پیغام کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کی جو عظیم ذات میں صفات پائی جاتی ہے جو انکے اندر استقامت ہے توحید ہے صبر ہے یہ تمام صفات کے تعلق سے ہماری کوشش ہونا چاہئے کہ مختصر ہی صحیح پر ہمارے اندر بھی آجائے۔
ہم انسان کو کیسے پہچانیں؟
مزید خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے زمانے میں ہم انسان کو کیسے پہچانیں؟ انسان اپنے عزم و ارادہ سے پہچانا جاتا ہے، جو انسان بلند ہوتا ہے اسکے نذدیک بلند مقصد بھی مختصر نظر آتے ہیں لیکن جو انسان چھوٹا ہوتا ہے تو اسکے نذدیک چھوٹے مقصد بھی بہت بڑے نظر آتے ہیں،اسکا ہدف چھوٹا ہوتا ہے اسلیۓ جب وہ چھوٹے ہدف تک پہنچ جاتا ہے تو بہت خوش ہوجاتا ہے، کیونکہ اسے وہ ایک بہت بڑی چیز سمجھتا ہے،لیکن جو بڑا انسان ہوتا ہے وہ بڑی چیز تک پہنچ جانے کے بعد بھی اسے لگتا ہے اسنے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔کیونکہ اسے بلند مقصد اسکے سامنے موجود ہوتے ہیں۔
انسان بلند مرتبہ تک کب پہونچتا ہے؟
مولانا نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی فکر کا انسان ہمیشہ چھوٹا سونچتا ہے اور بڑی سونچ کا انسان عظیم بات سونچتا ہے۔مولا حسین علیہ السلام نے کربلا میں آئندہ کی نسلوں کے بارے میں سونچ رہے تھے اور یہ عظیم فکر ہی تھی جو آج ہمیں نظر آرہی ہے عزاداری کی شکل میں۔
خدا اور رسول سے محبت کرنے والے ذلت،قبول نہیں کرتے
مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خدا اور رسول سے محبت کرنے والے ذلت،قبول نہیں کرتے، جب یزد کا لشکر امام حسین علیہ السلام بیعت چارہے تھے تو مولا نے کہا کہ میرے سامنے دو راستے ہیں ایک عزت کا اور دوسرا ذلت کا اور حسینؑ کو کھی بھی ذلت قبول نہیں ہے۔ اور مولا حسینؑ کہتے ہیں "هیهات من الذله" یہاں پر ہماری نسلوں کو بھی یہی پیغام ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرسکتے اسے قبول نہیں کرسکتے ہیں۔
حسین (ع) کیسے کہتے ہیں؟
مولانا نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولا حسین علیہ السلام وہ ذات ہیں جو ہماری روح میں انقلاب لے آتے ہیں یعنی کربلا کے واقعہ کو سننے کے بعد اگر انسان کی روح پاکیزہ ہے تو اسکی روح آواز دے گی کے میں حسینی ہوں اور وہ کبھی بھی ظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں ہوگا اور اسکے اندر ایک انقلاب برپا ہوگا۔
اخر میں مولانا نے عزاداری کے سلسلے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ عزائے سیدالشہداءؑ کو مستحب کہا جاتا ہے مگر ہماری جانیں قربان ہوجائیں اس مستحب پر جو واجب کو بچا لیا کرے اسے عزائے حسینؑ کہاجاتاہے۔
مجمع علماء و طلاب ہندوستان کے سکریٹری مولانا سید شکیل عباس نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی عشره محرم منعقد کیا گیا،انہوں نے بتایا اس مرکزی عشرہ میں محکمہ صحت کی طرف سے دی گئی ہدایات کا خاص خیال رکھا جارہا ہے اور شرکاء ماسک اور سنیٹائزر کی رعایت کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں۔
واضح رہے کہ قم المقدسہ میں موجود تمام انجمنوں کے درمیان مجمع علماء و طلاب ہندوستان نمایاں حیثیت کی حامل ہے اور یہ سرزمین قم کے طلاب ہندوستان کی سب سے قدیمی انجمنوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی ابتدا سے ہی طلاب ہندوستان کی فعال نمائندگی کرتے ہوئے بے شمار خدمات انجام دی ہیں جنمیں سے عزاء سید الشہداء(ع) کا انعقاد سب سے بڑا کارنامہ اور ناچیز کوشش ہے۔مجمع علماء و طلاب ہندوستان کو علماء و طلاب کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ہی تمام انجمنیں اور گروہ و تشکلات اسکی فعالیت میں بڑھ چڑھکر حصہ لیتی ہیں اور سبھی اسمیں دام درم شریک رہتے ہیں۔